نکاح نامہ کی اہمیت اور عورتوں کے حقوق

نکاح نامہ محض ایک کاغذ کا ٹکڑا نہیں بلکہ ایک دستاویز ہے اور ایسی دستاویز جس پر ہر حال میں من و عن عمل ہونا ہے ۔
ویسٹ پاکستان فیملی کورٹ ایکٹ کے تحت شادی کو قانونی حثیت اسی صورت مل سکتی ہے کہ وہ باقاعدہ رجسٹرڈ ہو۔ زبانی نکاح اور ایسا نکاح نامہ جو بمطابق قانون رجسٹرڈ نہ ہے اس کی بنیاد پر ہونے والی شادی ڈیفیکٹو شادی سمجھی جائے گی۔ ہمارے معاشرہ کا المیہ یہ ہے کہ ہم ایک ارب روپے کی بھی جائیداد خرید رہے ہو تو خریدنے سے پہلے ماہر قانون سے مشورہ لینے کی بجائے میٹرک فیل اشٹام فروش کے ذریعے ٹرانسفر کرواتے ہیں اور جب لٹ جائے تو ہم وکیلوں پر لاکھوں روپے فیس اور آئیندہ زندگی کا سکون تباہ کر لیتے ہیں مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا چک گی کھیت، اسی طرح ہم اپنی یا اپنی اولاد کی شادی سے قبل کسی قانون دان سے نکاح نامہ سمجھنا تو دور خود نکاح نامہ کو دیکھ کر پڑھنا بھی گوارا نہیں کرتے اور جس طرح محلے کے مولوی صاحب یا نکاح رجسٹرار نے درج کر دیا اسی پر اکتفا کرتے ہیں اور اگر بعد ازاں معاملہ عدالت میں آئے تو پتا چلتا ہے کہ درج شرائط ہی غیر قانونی ہیں اور ان پر عمل نہ ہو سکتا ہے۔


جس طرح ہر صاحب عقل شخص بوقت ضرورت اچھے ڈاکٹر سے دوا لیتا ہے اسی طرح ضروری ہے کہ آپ ہر قانونی معاملہ کی بابت اچھے اور قابل وکیل سے رائے ضرور لے۔
دنیا کی تمام بڑی کمپنیاں اور کامیاب لوگ ہر معاملہ پر قانونی رائے حاصل کرنے کے بعد ہی امور سر انجام دیتے ہیں اور ہر ناکام آدمی جوگارڈ کرتا ہے- “چوائس از یور” کہ آپ نے کامیاب لوگوں کے نقش قدم پر چلنا یا ناکام لوگوں کے جگارڑ پر۔
‏ضروری ہے کہ نکاح سے پہلے لڑکا اور لڑکی نکاح نامہ کو دھیان سے پڑھیں تاکہ انھیں پتہ ہو کہ ان کے ازدواجی حقوق کیا ہیں اور ان کا تحفظ کس طرح کیا جا سکتا ہے۔


شادی سے پہلے لڑکا اور لڑکی دونوں کا مل کر نکاح نامہ پُر کرنا ذیادہ بہتر عمل ہے۔
نکاح نامہ کے ٹوٹل 26 کالم ہیں جن میں کالم نمبران 13 سے 22 انتہائی اہم ہیں جن پر بالخصوص توجہ دینے کی ضرورت ہے


نکاح نامہ میں سب سے اہم کالم حق مہر کا ہوتا ہے جو شرعی طور پر بھی ضروری ہے، عورت کا اولین حق بھی ہے اور جس پر عدالتیں بھی من و عن عمل کرواتی ہیں۔ حق مہر ہمیشہ فریقین کی معاشی حثیت کے مطابق اور ذیادہ ہونا چاہیے۔ نکاح نامہ کے کالم نمبران 13 سے 17 مہر سے متعلق ہیں۔ مہر وہ رقم یا اس کا متبادل ہے جو شادی کے موقع پر شوہر بیوی کو ادا کرتا ہے۔ مہر دو قسم کا ہوتا ہے، ایک ‘معجل’ اور دوسرا ‘مؤجل’ یا غیر معجل۔
‏مہر معجل نکاح کے وقت یا بیوی کے مطالبے پر فوری ادا کرنا ہوتا ہے جبکہ مہر مؤجل کسی معیّنہ تاریخ یا واقعے کے رونما ہونے پر ادا کرنا ہوتا ہے۔


‏مہر مؤجل کی صورت میں مہر کی ادائیگی کی شرائط نکاح نامے میں درج کرنا ضروری ہے۔
‏نکاح نامہ کی شق 18 میں پوچھا جاتا ہے کہ آیا شوہرنے طلاق کا حق بیوی کو دے دیا ہے؟
‏میں نے دیکھا ہے کہ اچھے پڑھے لکھے
‏کچھ خاندانوں میں حق مہر کی تفصیلات پر تو کافی سنجیدہ مذاکرات ہوتے ہیں لیکن لڑکی کے حقِ طلاق جیسے اہم موضوع پر کوئی بات نہیں ہوتی۔


‏ طلاق کے موضوع پر بات کرنا آج بھی ہمارے معاشرے میں نامناسب سمجھا جاتا ہے۔
‏اگر بیوی کے پاس حقِ طلاق نہیں ہو تو اُس کے پاس خلع یعنی عدالت کے ذریعے شادی ختم کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔
خلع عورت کا قانونی حق ہے اور عورت اس حق کو استعمال کرتے ہوئے دو سے چھ ہفتوں میں عدالت سے ڈگری حاصل کر سکتی ہے۔


مگر اس عمل میں ایک تو عورت کو عدالت جانا پڑتا ہے اور دوسرا وہ اپنے مہر کی رقم سے محروم ہو جاتی مگر نکاح نامہ میں حقِ طلاق کی صورت میں یونین کونسل میں طلاق کے لیے رجسٹریشن کروائی جاتی ہے جس کے بعد عدالت جائے بغیر طلاق بھی ہو جاتی ہے اور لڑکی کو اس کا حق مہر بھی ملتا ہے۔


‏ لڑکی کا حقِ طلاق مشروط یا غیر مشروط ہو سکتا ہے مگر اُسے حقِ طلاق غیر مشروط رکھنا چاہیے۔ نکاح نامہ کی شق 19 کے مطابق بیوی شوہر کے حقِ طلاق پر شرائط عائد کر سکتی ہے۔ مگر یہ ایک فضول شق اس لیے ہے کہ عدالت عالیہ اسے غیر اسلامی اور غیر موثر قرار دے چکی ہے
‏کوئی دیگر شرط نکاح نامہ کا حصہ بن سکتی ہے


‏نکاح نامہ کی شق 20 کہتی ہے کہ اگر شادی کے موقع پر مہر و نان نفقہ سے متعلق کوئی دستاویز تیار کی گئی ہے تو اس کی تفصیلات درج کی جائیں۔


‏ اس شق کے ذریعے میاں بیوی کے درمیان طے پانے والے اضافی نکات کا اندراج کیا جا سکتا ہے۔
‏مثلاً بیوی کہہ سکتی ہے کہ جائیداد اس کے نام کی جائے یا شوہر کی ماہانہ آمدنی کی ایک مقررہ شرح مخصوص مدّت تک بیوی کو ادا کی جائے۔


‏اس شِق کے علاوہ میاں بیوی کے درمیان طے پانے والی کوئی بھی شرط نکاح نامے کا حصہ بنائی جا سکتی ہے۔
دوسری شادی کی صورت میں ‏نکاح نامہ کی شق 21 اور 22 مطالبہ کرتی ہیں کہ شوہر ثالثی کونسل سے اجازت حاصل کرے۔

اسلام نے خواتین کیلئے باقاعدہ حقوق مقرر کیے ہیں۔ حق مہر، نان نفقہ، حقِ وراثت اور دیگر جنکی ادائیگی مردوں پر فرض ہے۔

رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے: لوگوں! عورتوں کے (حقوق کے) معاملے میں اللہ سے ڈرو۔

نکاح نامہ کے مطابق بھی عورت کے بیشمار حقوق ہیں۔ عورت جب چاہیے اپنا حق مہر مانگ سکتی ہے جو اس کا اسلامی و قانونی حق ہے اور مرد حضرات کو بخوشی اسے ادا کر دینا چاہیے۔ عورت عدالت سے حق زن شوئی کی ڈگری بھی ڈیمانڈ کر سکتی ہے اور اگر مرد آباد نہ کرے تو عورت مرد سے اپنا اور اپنے بچوں کا خرچہ نان ونفقہ اپنی ضرورت اور شوہر کی معاشی حثیت کے مطابق وصول کرنے کی حق دار ہے۔ عورت بغیر کسی وجہ کے بھی بذریعہ خلع شادی ختم کر سکتی ہے اور اگر ایسی صورت پیدا ہو تو میاں بیوی دونوں کو چاہیں کہ عزت کے ساتھ ایک دوسرے سے الگ ہو جائے۔ دنیا کا کوئی مذہب یا کوئی قانون عورت کو باندی بنا کر زبردستی کے تعلق میں قید رکھنے کی اجازت نہیں دیتا۔ علیدگی کی صورت بچوں کی کسٹڈی بھی عورت بطور حق ڈیمانڈ کر سکتی ہے اور اس صورت میں بچوں کا خرچہ بذمہ والد ہی ہو گا۔


ہمارے معاشرہ میں اکثر خانگی پچیدگیاں شادی سے قبل نکاح نامہ کی اہمیت سے عدم آگاہی اور ماہرانہ رائے کی کمی کی وجہ سے ہی ہوتی ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *