عوامی رائے کی شکست، طاقت کی بے لگام پرواز

دنیا بھر میں جمہوریت کے چراغ روشن کیے جا رہے ہیں، مگر ان کے پیچھے جو اندھیرا چھپا ہے، وہ زیادہ گہرا ہوتا جا رہا ہے — اور شاید زیادہ خطرناک بھی۔
پاکستان سے فلسطین، امریکہ سے بھارت تک — ہر قوم میں عوام کی آواز موجود ہے، مگر افسوس، فیصلہ کہیں اور ہوتا ہے۔

پاکستان میں: وردی میں لپٹا ووٹ■

یہاں الیکشن نہیں، “انتظام” ہوتا ہے۔ وفاداریاں تبدیل کروائی جاتی ہیں، پارٹیوں کو جوڑا اور توڑا جاتا ہے، اور پھر میڈیا اور عدلیہ کے پردے میں اسے “جمہوری عمل” کہا جاتا ہے۔
حیرت اس پر نہیں کہ دھاندلی ہوتی ہے، افسوس اس پر ہے کہ کسی کو جواب دہ نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

بھارت میں: مذہب کے نقاب میں اقتدار■

آر ایس ایس اور اس کے ہمنوا “ہندو راشٹر” کا خواب دکھا کر اقلیتوں کے حقوق نگل چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی آنکھیں بند، عدلیہ خاموش، اور فوج سیاست سے دور مگر “منظوری” دیتی نظر آتی ہے۔

امریکہ میں: سرمایہ جمہوریت کو خرید چکا■

وہاں اسلحہ بنانے والی کمپنیاں پالیسیوں پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ جنگیں فیصلہ نہیں کرتیں، فیصلہ جنگیں کرواتی ہیں۔ عوام سڑکوں پر آتے ہیں، مگر وائٹ ہاؤس کی دیواروں تک اُن کی آواز نہیں پہنچتی۔

فلسطین میں: نسل کشی پر خاموش عالمی نظام■

اسرائیل کی وحشیانہ بمباری، اسپتالوں، اسکولوں، اور بچوں کی لاشوں کے باوجود — دنیا کی بڑی جمہوریتیں خاموش ہیں۔ کیونکہ جو ظلم کر رہا ہے، وہ جواب دہ نہیں؛ وہ صرف “قابلِ حمایت” ہے۔

سوال: کیا جمہوریت صرف ووٹ دینے کا نام ہے؟■

کیا عوامی رائے صرف پولنگ ڈے تک زندہ رہتی ہے؟
یا پھر اصل طاقت وہی گروہ رکھتے ہیں جنہوں نے کبھی ووٹ نہیں مانگا؟

“جو فیصلے عوام کی مرضی کے خلاف ہوں، وہ کبھی جمہوری نہیں ہو سکتے — چاہے انہیں قانون کی کتاب میں لپیٹ دیا جائے۔”

وقت آ گیا ہے■
• کہ ہم عوامی شعور کو احتجاج سے آگے، سوال سے آگے، مطالبے تک لے جائیں
• کہ ہر بااختیار ادارے سے پوچھا جائے: “آپ کس کے نمائندہ ہیں؟ عوام کے؟ یا کسی اور کے؟”
• اور اگر کوئی طاقت اپنے آپ کو جواب دہ نہ سمجھے — تو اسے جمہوریت کا مجرم مانا جائے

دنیا کو جمہوریت کے قافلے میں صرف ووٹ نہیں، ضمیر کے مسافر درکار ہیں۔
وگرنہ وہ دن دور نہیں جب آوازیں ہوں گی، مگر سننے والا کوئی نہ ہو گا۔

ایڈوکیٹ ذیشان اشرف ڈاہر

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *