Call us now:
حب الوطنی، فراڈ اور قومی وفاداری پر ایک سچائی
تحریر: ایڈوکیٹ ذیشان اشرف ڈاہر
جب بھارت میں ایک وکیل، ساجد احمد شیخ، کو 100 کروڑ روپے کے جعلی جی ایس ٹی انوائس اسکینڈل میں گرفتار کیا گیا تو یہ خبر فوراً شہ سرخی بن گئی۔ اس پر الزام ہے کہ اس نے 30 فرضی کمپنیاں بنا کر ایسی لین دین کی رسیدیں تیار کیں جو کبھی ہوئی ہی نہیں تھیں، اور ان رسیدوں کی بنیاد پر جعلی ان پٹ ٹیکس کریڈٹ کا دعویٰ کیا گیا۔ یہ سب ایک ایسے شخص نے کیا جس کا تعلق قانون کے پیشے سے تھا — جسے شاید ایک مہذب شہری اور محب وطن سمجھا جاتا ہو۔
لیکن اس کہانی میں ہمارے لیے ایک آئینہ بھی ہے۔
ہم پاکستان میں اکثر اپنے مسائل پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں بھی ایسے ہی فراڈ روزانہ ہو رہے ہیں۔ جعلی رسیدیں، فرضی کمپنیاں، ٹیکس چوری، اور سرکاری افسروں کی ملی بھگت کے ذریعے ریاست کو لوٹا جا رہا ہے۔ مگر چونکہ یہ سب بندوق یا بارود کے ساتھ نہیں ہوتا، اس لیے ہم اسے “قومی سلامتی” کا مسئلہ نہیں سمجھتے۔
حب الوطنی کا غلط تصور
ہم بھارت اور پاکستان دونوں طرف جنگی ہیروز کو سلام پیش کرتے ہیں، مگر جو لوگ کرپشن کے خلاف لڑتے ہیں، جو سچ بولتے ہیں، جو نظام کی خرابیوں کی نشاندہی کرتے ہیں — اُنہیں ہم یا تو نظر انداز کرتے ہیں یا غدار سمجھتے ہیں۔
ایک سپاہی جو سرحد پر جان دیتا ہے، قابلِ احترام ہے۔ مگر ایک ایماندار شہری، جو ٹیکس دیتا ہے، جو کرپشن کا ساتھ نہیں دیتا، وہ بھی اسی درجے کا ہیرو ہے — بلکہ طویل مدتی امن و ترقی کے لیے زیادہ اہم ہے۔
خاموشی بھی جرم ہے
ہر وہ شخص جو جعلی رسید پر دستخط کرتا ہے، ہر وہ افسر جو جان بوجھ کر آنکھیں بند کرتا ہے، ہر وہ شہری جو “چالاکی” سے ٹیکس بچاتا ہے — وہ ملک کے ساتھ وہی کر رہا ہے جو دشمن بارود سے کرتا ہے۔
ہم میں سے اکثر لوگ یہ کہتے ہیں: “سب ہی کر رہے ہیں، ہم بھی کر لیں گے” — مگر یہ سوچ ہی وہ دیمک ہے جو قوموں کو کھوکھلا کرتی ہے۔
نیا مجاہد، نیا محاذ
اب ہمیں ایسے سپاہیوں کی ضرورت ہے جو جنگی مورچوں میں نہیں، دفاتر اور بازاروں میں کھڑے ہوں۔ جو فائلوں میں ایمانداری ڈھونڈیں، رسیدوں میں سچائی رکھیں، اور قانون کو محض کتاب کا صفحہ نہیں بلکہ عملی ذمہ داری سمجھیں۔
یہی اصل حب الوطنی ہے۔ یہی اصل جہاد ہے — برائی کے خلاف، کرپشن کے خلاف، سستی شہرت کے خلاف۔
نتیجہ
جن قوموں میں لٹیرا عزت دار اور ایماندار بے وقوف سمجھا جائے، وہاں زوال صرف وقت کی بات ہوتا ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا: ہم اپنے بچوں کو کون سا رول ماڈل دکھا رہے ہیں؟ بندوق والا سپاہی، یا سچ بولنے والا شہری؟
اصل دشمن باہر نہیں، اندر چھپا ہے — اور اگر ہم نے اسے پہچانا نہیں، تو نہ بھارت بچے گا، نہ پاکستان۔
Yes, Zeeshan Bhai, you are absolutely right, our real enemies are inside Pakistan, not on Pakistan’s borders
THANKS
Bharat Tabah nai ho raha Pakistan e ho raha hy Bharat Phir b Taraqi ki rah par gamzan hy lootary Pakistan ma e hain
Ap suchai ko accept nii krna chahtayyy, such yay e hay